وہی شام کے دلاسے وہی صبح کے بہانے
وہی شام کے دلاسے وہی صبح کے بہانے
شب تار سے فراغت ملے کب خدا ہی جانے
کہاں وہ خفا خفا تھے کہاں آ گئے منانے
مری جیت بن گئے ہیں مری ہار کے زمانے
نہیں فصل گل کا شیدا مری خواہشوں کا موسم
گل دل کروں جو ارپن مرا دیوتا نہ جانے
شب غم بدل گئی ہے رخ کہکشاں کی صورت
تری یاد سے ہیں روشن مرے غم کے خانے خانے
تری زلف عنبریں تو وہ متاع دل کشی ہے
جسے رات نے چرا لی جسے مانگ لی گھٹا نے
تجھے پا کے بھی نہ پانا تجھے کھو کے پھر مچلنا
یہی الجھنوں کے پھیرے یہی جینے کے بہانے
جو ستم ہے ان کی فطرت تو ہے صبر اپنی عادت
دیا جور و ظلم ان کو ہمیں حوصلہ خدا نے
تری آنکھ کے یہ ساغر لب ناز کے کٹورے
مرے نام آج کر دے یہ سبھی شراب خانے
مرے دل میں اے فہیمؔ اب اٹھے ہیں جو درد پیہم
مجھے یاد آ رہے ہیں وہ شباب کے زمانے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.