وہیں پر ہوں جہاں رکتا رہا ہوں
میں اپنے آپ سے اکتا رہا ہوں
گزرتی عمر کے ہم راہ خود پر
صحیفوں کی طرح کھلتا رہا ہوں
سنو میری بھی کچھ اب تو خدارا
تمہاری بھی تو میں سنتا رہا ہوں
جو کیں ہیں پیش تم نے کیا بتاؤں
ہر اک منطق پہ سر دھنتا رہا ہوں
بچانے خود کو اپنی ہی تپش سے
میں اپنے سائے میں چھپتا رہا ہوں
بہت ڈھونڈا ہے میں نے خود کو لیکن
اسی کوشش میں خود گمتا رہا ہوں
چلے آتے ہیں روزانہ ڈرانے
وہ جن کے قرض میں چکتا رہا ہوں
پرائے شہر میں یاروں سے کٹ کر
غریبوں کی طرح رلتا رہا ہوں
یہ قیمت کم ہے شاید میں تمہارے
ترازو میں غلط تلتا رہا ہوں
نہیں عادت مجھے پینے کی میں تو
تمہاری یاد میں گھلتا رہا ہوں
چلے آؤ کہ رستہ صاف ہے اب
میں کانٹے راہ کے چنتا رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.