وہیں رکے ہیں جہاں موڑ داستان کا تھا
وہیں رکے ہیں جہاں موڑ داستان کا تھا
وہ فاصلہ ہی رہا ہے جو درمیان کا تھا
اسی دیار میں ہم نے بھی دن گزارے ہیں
خیال سب کو جہاں اپنی آن بان کا تھا
ہمارے پاؤں کے نیچے زمین ایسی تھی
قدم قدم پہ گماں جس پہ آسمان کا تھا
اسی لیے تو لہو رو کے بھی ہنسی آئی
میں جانتا ہوں کہ وہ تیر کس کمان کا تھا
ادھر بھی آئے تھے ارجن کے بان کی صورت
سمجھ لیا ہے اشارہ جو مہربان كا تھا
چمن میں غنچہ و گل کی شگفتگی دیکھی
پھر اس کے بعد جو کھلنا مری زبان کا تھا
نگار صبح کے ہم راہ بن سنور کے گیا
وہ رہنے والا جو اجڑے ہوئے مکان کا تھا
ہماری ہمتیں اقبالؔ ہم کو لے آئیں
ادھر تو رخ نہ ہوا کا نہ بادبان کا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.