وقت گزرا ہے ترے ہجر میں ایسے جاناں
وقت گزرا ہے ترے ہجر میں ایسے جاناں
کوئی مچھلی بنا پانی کے ہو جیسے جاناں
ہم کو معلوم تھا تو خوش ہے بچھڑ کر ہم سے
پھر بھی ہم یاد میں بے حد تری روئے جاناں
ہر گزر گاہ تری مجھ کو تھی منزل کی طرح
تو نے دیکھا نہیں مجھ کو کبھی مڑ کے جاناں
راہ کانٹوں بھری گلشن میں بدل سکتی تھی
ایک دوجے کو کبھی ہم جو سمجھتے جاناں
جن پہ چلتے تھے زمانے کو بھلا کر ہم لوگ
یاد کرتے ہیں ہمیں اب بھی وہ رستے جاناں
دل کے گوشے میں تھا صندوق تری یادوں کا
کر دیا ہے اسے ماضی کے حوالے جاناں
اب بھی رہ رہ کے مرے دل میں چمک اٹھتے ہیں
تو نے دیکھے تھے جو کچھ ٹوٹتے تارے جاناں
کچھ تو وہ زخم ہیں جو تو نے دئے ہیں مجھ کو
اور کچھ زخم کہ لوگوں نے اچھالے جاناں
اپنے ملنے کے زمانے میں ہیں قصے مشہور
ہم تو دو پل بھی کبھی ساتھ نہ بیٹھے جاناں
یہ غضب ہے کہ یہ آثار قیامت کے ہیں
ایک معصوم محبت پہ یہ پہرے جاناں
آزمائش ہے کڑی تیری محبت بھی صنم
ظلم ہر رنگ میں ہم نے ترے دیکھے جاناں
تیرا یہ شہر تو مسکن ہے ہنر مندوں کا
بات بدلی ہوئی بدلے ہوئے چہرے جاناں
مرغ بسمل کی طرح جیسے تڑپتا ہوں میں
تو بھی چاہت میں مری ایسے ہی تڑپے جاناں
تیرے شانوں پہ یوں ہی ہاتھ رکھا تھا میں نے
منجمد ہو گئے یادوں میں وہ لمحے جاناں
میں بھی کچھ وقت نہ رک پایا تمہاری خاطر
تم بھی میرے لیے کچھ دیر نہ ٹھہرے جاناں
تو نگاہوں میں بسا لیتی ہمیں تو ہم بھی
اشک بن کر ترے گالوں پہ لڑھکتے جاناں
ہم نے اقبال محبت پہ کہاں جبر کیا
بات تو بات تھی تم بات ہی سنتے جاناں
تجھ کو ڈر ہے تجھے مجھ سے نہ محبت ہو جائے
مجھ کو اندیشہ اسے سچ نہ تو سمجھے جاناں
اپنے ملنے کی نہیں آج بھی کوئی امید
ایک مدت ہوئی حالات نہ بدلے جاناں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.