وقت کا پہیہ چلا اور رات گہری ہو گئی
وقت کا پہیہ چلا اور رات گہری ہو گئی
شام آئی دن ٹلا اور رات گہری ہو گئی
اتنا روشن تھا بدن میں دن ہی رہتا تھا مدام
بے سبب ہی دل جلا اور رات گہری ہو گئی
آخری دیدار تھا تیار تھا جس کے لیے
ایسا مشکل مرحلہ اور رات گہری ہو گئی
جاگنے والے نہ تھے جو دیکھتے اس کی چمک
نیند سب کا مشغلہ اور رات گہری ہو گئی
میں اسے کہنے ہی والا تھا اجالا تھا ابھی
کر بھلا سو ہو بھلا اور رات گہری ہو گئی
رات تو پہلے سے تھی جب باپ سا سورج نہ تھا
چاند سا بھائی ڈھلا اور رات گہری ہو گئی
پی نہیں سکتے تھے پانی دیکھ تو سکتے تھے ہم
ایک تو یہ کربلا اور رات گہری ہو گئی
اس طرف طوفان آیا اور دن لمبا ہوا
ہم پر آیا زلزلہ اور رات گہری ہو گئی
سن رہے ہو جیسے ہی ابیض نے اسودؔ سے کہا
پر کرو میرا خلا اور رات گہری ہو گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.