وقت کا سانس بھی طوفان کا ٹھہراؤ لگے
وقت کا سانس بھی طوفان کا ٹھہراؤ لگے
اس کڑی رت میں کہاں ٹوٹی ہوئی ناؤ لگے
ہر نفس روح میں اک زہر بھرا گھاؤ لگے
ہر صدا چیختے الفاظ کا پتھراؤ لگے
خیمہ زن ہوگی اسی جا پہ سواری گل کی
اے صبا دشت میں پھر خون کا چھڑکاؤ لگے
پھر سے تجدید ستم کی نئی صورت نکلی
حد سے بدلا ہوا احباب کا برتاؤ لگے
لوگ کہتے ہیں وفا جنس گراں مایہ ہے
شہر میں لے تو چلیں دیکھ لیں کیا بھاؤ لگے
ہر ادا اس کی ظفرؔ جوئے رواں کی مانند
دل میں جھانکوں تو سمندر کا سا پھیلاؤ لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.