وقت نے رنگ بہت بدلے کیا کچھ سیلاب نہیں آئے
وقت نے رنگ بہت بدلے کیا کچھ سیلاب نہیں آئے
مری آنکھیں کب ویران ہوئیں کب تیرے خواب نہیں آئے
دل صحرا کا وہ تشنہ لب ہر بار یہی سوچا جس نے
ممکن ہے کہ آگے دریا ہو اور کوئی سراب نہیں آئے
ہم لوگ کیوں اتنے پریشاں ہیں کس بات پر آخر نالاں ہیں
کیا ساری بہاریں روٹھ گئیں کیا اب کے گلاب نہیں آئے
تم قرب کی راحت کیا سمجھو تم ہجر کی وحشت کیا جانو
تم نے وہ رات نہیں کاٹی تم پر وہ عذاب نہیں آئے
پہلے بھی جہاں پر بچھڑے تھے وہی منزل تھی اس بار مگر
وہ بھی بے لوث نہیں لوٹا ہم بھی بے تاب نہیں آئے
یہ بزم ہلالؔ ہے خوب مگر جب تک نہ سنائیں آپ غزل
چہروں کے گلاب نہیں مہکیں محفل پہ شباب نہیں آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.