وسیلے کامرانی کے حصول زر میں رکھے ہیں
وسیلے کامرانی کے حصول زر میں رکھے ہیں
کہ سیدھے راستے بھی تو کسی چکر میں رکھے ہیں
مرے دشمن کو مجھ پر وار کرنے کی ضرورت کیا
اسے معلوم ہے کیا لوگ اس لشکر میں رکھے ہیں
مجھے رکھا تو رکھا شک بھری نظروں کے پہرے میں
جو دشمن تھے مرے یاروں نے اپنے گھر میں رکھے ہیں
جو آنکھوں کو نہیں حسب ضرورت دیکھنے دیتے
کچھ ایسے آئنہ بھی دھوپ کے منظر میں رکھے ہیں
کئی اسرار ہیں کھلتے نہیں جو ذہن آدم پر
کئی نکتے ہیں جو تفہیم خیر و شر میں رکھے ہیں
یہاں بس ایک ایماں کی ہی گنجائش نہیں نکلی
ہزاروں وسوسے یوں تو دل کافر میں رکھے ہیں
اب اتنا زور سے بھی چیخنا اچھا نہیں لگتا
قیامت ہی سہی گو عرصۂ محشر میں رکھے ہیں
گواہی کون دینے آئے گا ایسی عدالت میں
کٹہرے بھی جہاں قاتل نے اپنے گھر میں رکھے ہیں
اور اب سجدے سے اٹھنے کی سکت بھی کس میں باقی ہے
ہمارے رزق اے معبود کس پتھر میں رکھے ہیں
ہمیں شہزادؔ اپنے آپ سے ہی پوچھنا ہوگا
جہاں میں اک ہمی کیوں پاؤں کی ٹھوکر میں رکھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.