وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
حوصلہ دل کا جو تھا دل میں بدستور رہا
عمر رفتہ کے تلف ہونے کا آیا تو خیال
لیکن اک دم کی تلافی کا نہ مقدور رہا
جمع کس دن نہ ہوئے موسم گل میں میکش
روز ہنگامہ تہ سایۂ انگور رہا
گردش بخت کہاں سے ہمیں لائی ہے کہاں
منزلوں وادئ غربت سے وطن دور رہا
راست بازی کر اگر ناموری ہے درکار
دار سے خلق میں آوازۂ منصور رہا
وہ تو ہے چرخ چہارم پہ یہ پچ محلے پر
سچ ہے عیسیٰ سے بھی بالا ترا مزدور رہا
فصل گل آئی گئی صحن چمن میں سو بار
اپنے سر میں تھا جو سودا وہ بدستور رہا
جلوۂ برق تجلی نظر آیا نہ کبھی
مدتوں جا کے وہاں میں شجر طور رہا
زلف و رخ دونوں ہیں جانے سے جوانی کے خراب
مشک وہ مشک نہ کافور وہ کافور رہا
غول صحرا نے مرا ساتھ نہ چھوڑا شب بھر
لے کے مشعل کبھی نزدیک کبھی دور رہا
ہم بھی موجود تھے کل محفل جاناں میں امیرؔ
رات کو دیر تلک آپ کا مذکور رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.