وطن جس روز سے چھوٹا ہے وہ منظر نہیں ملتا
وطن جس روز سے چھوٹا ہے وہ منظر نہیں ملتا
در و دیوار مل جاتے ہیں لیکن گھر نہیں ملتا
بہت مشکل ہے دو دنیاؤں میں اک شخص کا رہنا
جو مجھ میں سوچتا ہے وہ مجھے باہر نہیں ملتا
نہ سیکھے باپ کی انگلی پکڑ کر طفل گر چلنا
اسے منزل تو مل جائے مگر رہبر نہیں ملتا
منافع خور دو دن کے لیے بھی کر نہیں سکتے
صلے میں جس عمل کے نقد مال و زر نہیں ملتا
نکالے کام اپنا خوف کی وہ پرورش کرکے
مرے دشمن کو مجھ میں کوئی ایسا ڈر نہیں ملتا
جبینوں میں تڑپتے ہیں جو سجدے وہ کہاں جائیں
دیار غیر میں جب تیرا سنگ در نہیں ملتا
مرا سجدہ ہے ضرب بت شکن پندار کے سر پر
یہاں اس راز سے واقف کوئی ہم سر نہیں ملتا
ضرورت کے مطابق سب کو اے مختارؔ ملتا ہے
گلہ اس بات کا رہتا ہے جھولی بھر نہیں ملتا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 453)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.