ویرانۂ ہستی میں جو کل راہنما تھا
ویرانۂ ہستی میں جو کل راہنما تھا
کیوں آج وہ اپنا ہی پتا پوچھ رہا تھا
مرجھا کے بکھر جانا ہی تقدیر تھی اس کی
وہ پھول سر شاخ تمنا جو کھلا تھا
تھا کوچۂ دل دار میں اک سحر کا عالم
جو مجھ کو نظر آیا وہ اپنا سا لگا تھا
اس نے ہی مری فکر کو بخشی ہے حرارت
اک آگ کا دریا جو کبھی پار کیا تھا
وہ بات نہ کرتا یہی بہتر تھا سر بزم
اس برف سے لہجے میں تو اک شعلہ چھپا تھا
ہیں یاد خد و خال نہ اب اس کا سراپا
وہ جس کی ہتھیلی پہ مرا نام لکھا تھا
بے وجہ کوئی خود کو مٹاتا نہیں ساجدؔ
مرنا ہے اگر کفر تو جینا بھی سزا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.