وصال یار کیسے ہو یہ قصہ کچھ عجب بھی ہے
وصال یار کیسے ہو یہ قصہ کچھ عجب بھی ہے
چراغ دل جلے کب تک بہت لمبی یہ شب بھی ہے
ہمیں کچھ دیر گھر کی کھڑکیاں بھی بند کرنے دو
بلا کا شور ہے باہر خموشی کی طلب بھی ہے
وہی پہچان ہے اپنی وہی ہے اپنی عظمت بھی
کہیں بھی پوچھ لینا اپنا کوئی نام و نسب بھی ہے
یہ آنکھیں دید کی طالب ہیں اب بھی بے وفا من لے
ملاقاتیں نہیں ہوتیں مری جاں کچھ سبب بھی ہے
تمہارے نام کو سنتے ہی خوش ہوتا تھا دل میرا
تمہارا ذکر آتے ہی ان آنکھوں میں غضب بھی ہے
مرے بچے جواں ہیں پھر بھی سہما سہما رہتا ہوں
ابھی بھی ڈر ہے والد کا وہی دل میں ادب بھی ہے
کھنکتی چوڑیوں میں ہے چھلکتے جام کا پرتو
سرور و رقص کی رت ہے اور اک جشن طلب بھی ہے
عظیمؔ اب تک وہی یادیں وہی ہے میل کا پتھر
گزر گاہوں کا ہر منظر جو پہلے تھا سو اب بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.