وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
ہمارے آپ کے ہرگز وہ ماجرا نہ رہا
سر نیاز رہا زیر پائے یاد مدام
حنا کی طرح میں قدموں سے کب لگا نہ رہا
دل آشنائی کو چاہے کسی کی خاک مرا
کہ آشنا جو ہوا تھا وہ آشنا نہ رہا
ہمیشہ جس سے پہنچتا رہے تھا دل کو الم
ہزار شکر کہ وہ درد بے دوا نہ رہا
جب آپ ہم نے بتاں ترک آشنائی کی
کسی بھی طرح کا تم سے ہمیں گلا نہ رہا
گلوں کے چہروں پہ زردی سی پھر رہی ہے تمام
گئی بہار وہ موسم کا ابتدا نہ رہا
صفائے سینہ سے پھسلا نہ کب دل عاشق
کہ چاہ ناف میں وہ خوں گرفتہ جا نہ رہا
ہزار حرف زباں سوز درمیاں آئے
ہے سچ تو یہ کہ محبت میں وہ مزا نہ رہا
چمن کو چھوڑ ہم ایسے چلے گئے سوئے دشت
کہ نام کو بھی پھر اندیشۂ صبا نہ رہا
یہ کس کے چاہ زنخداں کی فکر میں ڈوبا
تمام رات جو زانو سے سر جدا نہ رہا
عجب نہ جان گر آ جائے سلطنت کو زوال
کسی کے سر پہ سدا سایۂ ہما نہ رہا
نشان مصحفیٔؔ خستہ پوچھتے کیا ہو
وہ خاک راہ تو اب مثل نقش پا نہ رہا
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(Vol-4)(pdf) (Pg. 78)
- Author : Ghulam hamdani Mashafi
- مطبع : Qaumi council baraye -farogh urdu (2005)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.