وہ اپنے بندوں کو پہلے تو آزماتا ہے
وہ اپنے بندوں کو پہلے تو آزماتا ہے
پھر ان کے حسن تغافل پہ مسکراتا ہے
وہی نکال کے لاتا ہے موت کے منہ سے
ردائے خاک وہی پھر ہمیں اڑھاتا ہے
سمجھ میں آ نہیں سکتا یہ فلسفہ سب کی
اندھیری رات میں کیا ہے جو جگمگاتا ہے
طواف اس کا ہی کرتی ہیں مشکلیں ہر دم
لہو کے آنسو جو ماں باپ کو رلاتا ہے
خدا بچاتا ہے ہر آفت و بلا سے اسے
کسی پہ کر کے جو احسان بھول جاتا ہے
ہمی سے دفن کراتا ہے دانا دانا وہ
اسی کو پھر سے ہمارے لئے اگاتا ہے
وہ اک لکیر جو دونوں کے درمیاں میں ہے
گزرتا وقت اسے ہر گھڑی مٹاتا ہے
ہزار کوششیں کر لو نتیجہ کچھ بھی نہیں
وہی سنبھلتا ہے عاطفؔ جو چوٹ کھاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.