وہ اولیں درد کی گواہی سجی ہوئی بزم خواب جیسے
وہ اولیں درد کی گواہی سجی ہوئی بزم خواب جیسے
وہ چشم سرمہ کلام کرتی وہ سارے چہرے کتاب جیسے
وہ آنکھ سایہ فگن ہے دل پر جو بے خودی کا ہے استعارہ
گھلی ہوئی نیلگوں سمندر میں طلعت ماہتاب جیسے
بس ایک دھماکہ کہ رات کی سرحدوں کا کچھ تو سراغ پائیں
بس ایک چنگاری چاہتا ہو فتیلۂ آفتاب جیسے
وہ جس کی پاداش میں سحر زاد اپنی آنکھیں گنوا چکے ہیں
اک اور تعبیر چاہتے ہوں وہ اولیں شب کے خواب جیسے
وہ موج سرکش جو ساحلوں کو ڈبو گئی کیسے ٹوٹتی ہے
اس ایک منظر کے دیکھنے کو کھلی ہو چشم حباب جیسے
مری مژہ سے ٹپکتا آنسو ہو جیسے ہر ڈوبتا ستارہ
لکھا گیا ہو مری ہی پلکوں پہ رت جگوں کا حساب جیسے
لہو جو رزق زمیں ہوا ہے وہ بارشوں میں دھلا نہیں ہے
تمام آئندہ موسموں کے ہو نام یہ انتساب جیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.