وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا
وہ بے نیاز شب و روز و ماہ و سال گیا
اب اس کے گمشدہ ہونے کا احتمال گیا
وہ اک خیال کہ ہر دم جہاں خیال گیا
کبھی عذاب میں رکھا کبھی سنبھال گیا
جو شہر لفظ و معانی سے دور دور رہا
وہ بے ہنر تری گلیوں سے با کمال گیا
حدود وقت سے آگے اڑان بھرتے رہے
امیر وقت کا منصب گیا جلال گیا
ہمیں تو رت کے بدلنے کی کچھ خبر بھی نہیں
ہم اپنی نیند سے جاگے تو ہر ملال گیا
اسیر شب وہ رہا عمر بھر مگر اس بار
اٹھا تو خاک سے سورج کئی اچھال گیا
نہ جانے کس کو وہ آواز دیتا رہتا ہے
کبھی جو پوچھا تو وہ شخص ہنس کے ٹال گیا
اداس اداس ہے اب بھی شعیبؔ فصل مراد
امید امید میں لگتا ہے پھر یہ سال گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.