وہ بے پردہ وارد ہوا چاہتا ہے
وہ بے پردہ وارد ہوا چاہتا ہے
سر انجمن حشر اٹھا چاہتا ہے
نہ محروم ساقی رہے ساغر دل
شراب حقیقت نما چاہتا ہے
نہیں عذر تقصیر اس دل کو کوئی
مگر حق بہ جانب سزا چاہتا ہے
گری برق صحن گلستاں میں لیکن
مرا آشیاں بھی جلا چاہتا ہے
تلاش و طلب میں جو سرگرم دل تھا
وہ اپنا ہی خود اب پتا چاہتا ہے
یہ ہم نے زمانے میں دیکھا ہے اکثر
برا ہے وہی جو بھلا چاہتا ہے
کمی ہے تڑپنے کی لذت میں اب تک
دل درد اس سے سوا چاہتا ہے
مریض تمنا محبت کی روگی
کوئی دم میں رخصت ہوا چاہتا ہے
گریباں تصدق ہے جوش جنوں پر
کوئی اب تماشا بنا چاہتا ہے
گنہ گار الفت سزا کی کمی پر
کسی سے حساب خفا چاہتا ہے
محبت میں سب کچھ کسی نے لٹایا
نہ معلوم اب کوئی کیا چاہتا ہے
ضیاؔ عشق میں اب خدا اس سے سمجھے
جو مجھ کو پھنسا کر بچا چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.