وہ بھی کیا عالم تھا جب اپنا کوئی عالم نہ تھا
وہ بھی کیا عالم تھا جب اپنا کوئی عالم نہ تھا
سید واجد علی فرخ بنارسی
MORE BYسید واجد علی فرخ بنارسی
وہ بھی کیا عالم تھا جب اپنا کوئی عالم نہ تھا
عیش سے واقف نہ تھا دل آشنائے غم نہ تھا
جس نے دیکھا ہی نہیں وہ تجھ کو کیوں کر جانتا
دیکھنے پر بھی تو کوئی حسن کا محرم نہ تھا
قہر تھا شکوہ ستم کا ورنہ اس سے پیشتر
ان نگاہوں کی پشیمانی کا یہ عالم نہ تھا
تھا مذاق درد فرخؔ سعیٔ درماں سے بلند
زخم دل میرا کبھی شرمندہ مرہم نہ تھا
جب قفس میں آئے تھے ہم وہ بھی کیا ہنگام تھا
باغ سے تا خانۂ صیاد اک کہرام تھا
کس قیامت کا دیا ان کی نگاہوں نے فریب
جس کو ہم آغاز سمجھے تھے وہی انجام تھا
دیکھنے آئے تھے ہم ناز و نیاز حسن و عشق
ورنہ مرنا اور جینا یہ بھی کوئی کام تھا
یہ نیا دستور دیکھا حسن کی سرکار میں
جو سزا وار کرم تھا مورد الزام تھا
ایک دور بے خودی میں سب حقیقت کھل گئی
ہم وہاں پہونچے جہاں اللہ کا بس نام تھا
وائے غفلت ہم رہے انجام سے ناآشنا
زندگی کے ہر نفس میں موت کا پیغام تھا
حسن کے پاس ادب سے ہم رہے پابند ضبط
ورنہ اک دل کا ہلا دینا بھی کوئی کام تھا
ہو گیا دم بھر میں فرخؔ کچھ سے کچھ رنگ چمن
خندۂ گل میں خدا معلوم کیا پیغام تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.