وہ بھی کیا دن تھے جدا ہوتے نہ تھے اک دم کہیں
وہ بھی کیا دن تھے جدا ہوتے نہ تھے اک دم کہیں
گردش افلاک سے اب تم کہیں اور ہم کہیں
تھم رہیں یا رب نہ اپنے دیدۂ پر نم کہیں
کم نہ ہو دنیا سے اب یہ چشمۂ زمزم کہیں
غم نہ کھا اے دل کہ دنیا کا یہی قانون ہے
نغمۂ شادی کہیں ہے نالۂ ماتم کہیں
اب یہ عالم ہے کہ اک عالم کا جی قربان ہے
او بت کافر نہ دیکھا تیرا سا عالم کہیں
گو پریشاں کر دے میری صرصر آہ اک جہاں
ہو نہ وہ زلف معنبر درہم و برہم کہیں
ظالم و بے رحم دنیا میں نہیں گر آپ سا
صابر و شاکر زیادہ مجھ سے ہوگا کم کہیں
غنچہ ساں خون جگر پی پی کے رہتے ہیں مدام
شکل گل ہو جائے ٹکڑے دل جو ہو خرم کہیں
عمر کے مانند ہر دم ہم سے رم ہے یار کو
چوکڑی بھولے ہرن کر دیکھ لے یہ رم کہیں
اس کی پستاں پر جو پھیرا ہاتھ وہ کہنے لگا
محروموں پر ڈالتے ہیں ہاتھ نامحرم کہیں
اس زمیں میں اور بھی دولہؔ سناؤ اک غزل
آپ کے سے شعر کا دیکھا نہیں عالم کہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.