وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس
وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس
وہ حادثہ تھا مگر ایسا حادثہ تھا کہ بس
وہ پہلے پہلے ملا تھا تو یوں سجا تھا کہ بس
پھر اس کے بعد تو ایسا اجڑ گیا تھا کہ بس
میں اپنے گاؤں کے دیوار و در پہ کیا لکھتا
وہاں تو ایسا اندھیرا چنا ہوا تھا کہ بس
وہ ایک عام سا لہجہ تھا بھیگے موسم کا
نگاہ و دل میں مگر یوں اتر گیا تھا کہ بس
بس ایک موڑ تلک ہم سفر دلاسے تھے
پھر اس کے بعد تو وہ سخت مرحلہ تھا کہ بس
غریب ٹوٹ نہ جاتا تو اور کیا کرتا
تمام عمر زمانے سے یوں لڑا تھا کہ بس
نہ آ سکا وہ مرے گھر تو کیا ہوا ناظمؔ
کہ راستہ بھی تو ایسا گھماؤ کا تھا کہ بس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.