وہ گری ہے برق کہ الامان مرے آشیان قرار پر
وہ گری ہے برق کہ الامان مرے آشیان قرار پر
مگر اعتماد ہے آج بھی تری بات پر ترے پیار پر
مری سب دعائیں قبول ہیں مجھے اور کچھ نہیں چاہئے
مرے پاس ہے مئے غم ربا مرا سر ہے زانوئے یار پر
مری کامیابیٔ عشق پر یہ فضائیں کیوں نہیں جھومتیں
ابھی روشنی سی ہوئی تھی کچھ ابھی آئے تھے وہ مزار پر
یہی بندگی ہے مرے لیے یہی سجدہ ہے مرے واسطے
نظر اٹھی اٹھ کے ٹھہر گئی تری خاک راہ گزار پر
مجھے کیا ستائے گی کشمکش میں چمن کا نبض شناس ہوں
نہ خزاں سے مجھ کو کبیدگی نہ نگاہ میری بہار پر
یہ گلوں پہ کس نے ستم کیا ہوا کون غنچوں سے بے ادب
کوئی گل فروش نہ ہو یہاں ہے شکن جبین بہار پر
یہ نوازش ستم آفریں وہ ادھر سے ہو کے گزر گئے
کہ نگاہ بھی نہ اٹھا سکے مری حسرتوں کے مزار پر
یہی میرا مسلک زیست ہے یہی میرا مذہب عین ہے
نہ خزاں کی ہجو لکھی کبھی نہ کہا قصیدہ بہار پر
یہ چمک اٹھا بھی تو تابکے یہ رسا ہوا بھی تو تا کجا
مجھے علم مدت عمر ہے ہنسی آ رہی ہے شرار پر
وہی اپنا بسملؔ بادہ کش جو ملا بھی ہے تو کہاں ملا
کبھی میکدے کی فضاؤں میں کبھی آستانۂ یار پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.