وہ حال دل ہے ترا ساتھ ختم ہونے پر
وہ حال دل ہے ترا ساتھ ختم ہونے پر
وہی جو ہوتا ہے برسات ختم ہونے پر
میں حوصلے سے رہا خوف کے سمندر میں
مگر میں گر پڑا خدشات ختم ہونے پر
مرے جواب سے سب لا جواب ہیں لیکن
میں مضطرب ہوں سوالات ختم ہونے پر
وہ اک ہجوم جو مجھ کو اٹھائے پھرتا تھا
نظر نہ آیا مفادات ختم ہونے پر
میاں یہ سنتے چلے آئے ہیں بزرگوں سے
کہ ختم ہوتی ہیں عادات ختم ہونے پر
کچھ ایسے لوگ بھی اے نسل نو حیات ہیں جو
سلگ رہے ہیں روایات ختم ہونے پر
سنو فضاؤں کو مسموم اس قدر نہ کرو
کہ آ گئے ہیں نباتات ختم ہونے پر
کہیں زمانہ کسی کے لئے رکا ہے کبھی
کوئی نہ ہوگا تری بات ختم ہونے پر
ہے بد دعا یا کوئی سحر ہے قمرؔ ہم پر
اندھیرا بڑھتا ہے ہر رات ختم ہونے پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.