وہ حرف و نقش سے خالی کتاب مانگتا ہے
وہ حرف و نقش سے خالی کتاب مانگتا ہے
سوال کرتا نہیں ہے جواب مانگتا ہے
میں سارا سال ہی رکھتا ہوں اپنے زخم ہرے
وہ سارا سال ہی تازہ گلاب مانگتا ہے
میں ریزہ ریزہ اسے ٹوٹ کر دکھاتا ہوں
وہ لمحے لمحے کا مجھ سے حساب مانگتا ہے
سنا ہے اس کی محبت ہے ماورائے حیات
سو سارا شہر ہی مرنے کے خواب مانگتا ہے
وہ اس طرح بھی پرکھتا ہے دوستوں کا خلوص
کہ بت ہے موم کا اور آفتاب مانگتا ہے
ہر ایک شخص ہے اس کی کرامتوں کا اسیر
اسی سے ہوش اسی سے شراب مانگتا ہے
وہ پہروں گھورتا رہتا ہے آئینوں کو نعیمؔ
جو کھو چکا ہے وہ عہد شباب مانگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.