وہ حسین جلوہ بہ دوش ہے کوئی پردہ ہے نہ نقاب ہے
وہ حسین جلوہ بہ دوش ہے کوئی پردہ ہے نہ نقاب ہے
ترا پردہ ہے تری پردگی یہ حجاب تیرا حجاب ہے
تری چشم مست کے دور میں کوئی جام جام شراب ہے
جو ہے اہل دید وہ مست ہے جو ہے اہل دل وہ خراب ہے
جو تقاضا تھا تو وہ طور تھا جو طلب تھی تو وہ ظہور تھا
نہ تقاضا ہے نہ طلب ہے اب نہ سوال ہے نہ جواب ہے
اسے ساتھ لے چلو رہبرو کہ ذرا نئی ہے رہ عدم
یہ سوار عمر رواں مرا سر راہ پا بہ رکاب ہے
اسے کھیل سمجھا تو بچ رہا نہ سمجھ سکا تو الجھ گیا
اسے آنکھ کھول کے دیکھنا تری زندگی کا یہ خواب ہے
نہ ہے خوف اہل کتاب سے نہ ہراس اہل حساب سے
وہ کرم ہے میرے کریم کا نہ حساب ہے نہ کتاب ہے
کسی علم سے نہ اسے غرض نہ کسی ادب سے ہے واسطہ
ترا درد جس کا حساب ہے ترا حسن جس کی کتاب ہے
دل پر ہوس تجھے سیر ہستیٔ بے سکوں کی مجال کیا
کہ مثال موج رواں ہے یہ تری چشم چشم حباب ہے
نہ الجھ نمائش دہر کے کبھی دام نقش و نگار میں
جو نگار ہے وہ پریدہ ہے جو ہے نقش نقش بر آب ہے
وہی نور جس سے ہیں نور نور ہزاروں نیر و مہر و ماہ
جو اسی کے سائے میں آ گیا فقط اس کو دید کی تاب ہے
بہ خلوص ایمنؔ بے نوا اسی آستاں پہ جبیں جھکا
کوئی بے مراد نہیں گیا شہہ دو جہاں کی جناب ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.