وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
اکبر الہ آبادی
MORE BYاکبر الہ آبادی
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وہ حسیں نہ رہے
وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہے وہ مکیں نہ رہے
وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی
وہ حسینوں میں رنگ وفا نہ رہا کہیں اور کی کیا وہ ہمیں نہ رہے
نہ وہ آن رہی نہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہد کی جنگ رہی
سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے اور در پہ نقش جبیں نہ رہے
نہ وہ جام رہے نہ وہ مست رہے نہ فدائی عہد الست رہے
وہ طریقۂ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے
ہمیں لاکھ زمانہ لبھائے تو کیا نئے رنگ جو چرخ دکھائے تو کیا
یہ محال ہے اہل وفا کے لیے غم ملت و الفت دیں نہ رہے
ترے کوچۂ زلف میں دل ہے مرا اب اسے میں سمجھتا ہوں دام بلا
یہ عجیب ستم ہے عجیب جفا کہ یہاں نہ رہے تو کہیں نہ رہے
یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی جاؤ نہ تم نہ کرو یہ غضب
کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمہیں نہ رہے
جو تھیں چشم فلک کی بھی نور نظر وہی جن پہ نثار تھے شمس و قمر
سو اب ایسی مٹی ہیں وہ انجمنیں کہ نشان بھی ان کے کہیں نہ رہے
وہی صورتیں رہ گئیں پیش نظر جو زمانہ کو پھیریں ادھر سے ادھر
مگر ایسے جمال جہاں آرا جو تھے رونق روئے زمیں نہ رہے
غم و رنج میں اکبرؔ اگر ہے گھرا تو سمجھ لے کہ رنج کو بھی ہے فنا
کسی شے کو نہیں ہے جہاں میں بقا وہ زیادہ ملول و حزیں نہ رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.