وہ حسن حسن بدن کب کسی کو دیکھتا ہے
وہ حسن حسن بدن کب کسی کو دیکھتا ہے
خود اپنے معنی و مفہوم ہی کو دیکھتا ہے
گزر رہی ہے ان آنکھوں کے سامنے سے بہار
ٹھہر ٹھہر کے یہ دل اس گلی کو دیکھتا ہے
یہ دل کہ اصل میں بے دید ہی کی رو سے ہے
پکارتا ہے کسی کو کسی کو دیکھتا ہے
نہیں کھلے گا کسی طرح حسن آرائش
تو کس لحاظ سے اس سادگی کو دیکھتا ہے
عبث ہے پاؤں کی زنجیر دیکھنا ہر صبح
جنوں شعار کہاں بے کسی کو دیکھتا ہے
وہ ٹوٹتے ہوئے احساس چھوٹتے ہوئے لوگ
تو دور ہوتی ہوئی زندگی کو دیکھتا ہے
نہاں تھا سب سے وہ اک پھول جو کہ زخم بنا
عیاں ہوا تو زمانہ اسی کو دیکھتا ہے
وہ پیشتر کسی نادید کی تلاش میں تھا
پناہ کے لیے اب شاعری کو دیکھتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.