وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا
وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا
رقیب پر مجھے بے اختیار پیار آیا
یہ حال تھا شب وعدہ کہ تا بہ راہ گزر
ہزار بار گیا میں ہزار بار آیا
ترا ہی کوچہ ٹھکانہ ہے خاکساروں کا
جو زندہ آ نہ سکا میں مرا غبار آیا
مزے اڑائے وہاں خوش رہا لیا انعام
یہاں جو نامہ بر آیا تو اشک بار آیا
گزر گئے اسی گردش میں اپنے لیل و نہار
شب فراق گئی روز انتظار آیا
اڑائے ہیں ملک الموت نے بھی تیرے ڈھنگ
ہزار بار بلایا تو ایک بار آیا
خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں
مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا
کہاں تھے شب کو تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ نہیں
کوئی پکارنے والا بہت پکار آیا
کمال عشق کو فرہاد و قیس کب پہنچے
وہ پختہ کار ہے دل جس کا بار بار آیا
وہ کیوں ہوئے مرے مشتاق خیر ہو یا رب
طلب میں کل ہی خط آیا تھا آج تار آیا
پلا دے آج سر شام مجھ کو اے ساقی
کہ تیری بزم میں اک میں ہی روزہ دار آیا
ڈرے جو حشر میں وہ مجھ کو دیکھتے ہی کہا
مرا رفیق مرا داغؔ جاں نثارؔ آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.