وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں
وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں
کہ ہے نغمہ نغمہ مری دسترس میں
تصور بہاروں میں ڈوبا ہوا ہے
چمن کا مزہ مل رہا ہے قفس میں
گلوں میں یہ سرگوشیاں کس لیے ہیں
ابھی اور رہنا پڑے گا قفس میں
نہ جینا ہے جینا نہ مرنا ہے مرنا
نرالی ہیں سب سے محبت کی رسمیں
نہ دیکھی کبھی ہم نے گلشن کی صورت
ترستے رہے زندگی بھر قفس میں
کہو خواہ کچھ بھی مگر سچ تو یہ ہے
جو ہوتے ہیں جھوٹے وہ کھاتے ہیں قسمیں
میں ہونے کو یوں تو رہا ہو گیا ہوں
مری روح اب تک ہے لیکن قفس میں
نہ گرتا میں اے نازؔ ان کی نظر سے
دل اپنا یہ کم بخت ہوتا جو بس میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.