وہ جو اب تک لمس ہے اس لمس کا پیکر بنے
وہ جو اب تک لمس ہے اس لمس کا پیکر بنے
میری خواہش بھی عجب ہے آئنہ پتھر بنے
اک حصار رنگ میں بس سوچتا رہتا ہوں میں
کس طرح آندھی ہوا کی زد پہ کوئی گھر بنے
راستے پاؤں بنیں تو کیسے طے ہوں راستے
نیند کیسے آئے گی جب جسم ہی بستر بنے
خوں بہا کس سے طلب ہو کس کو قاتل مانیے
آپ اپنی سوچ ہی جب زہر کا خنجر بنے
قتل ہو جب تک نہ سورج کا کھلے گی کیسے شام
رنگ ہی بکھرے نہ تو کیسے کوئی منظر بنے
ایک مدت سامنا خود جن کو اندھے پن کا تھا
روشنی ملتے ہی خود آنکھوں کے سودا گر بنے
خون دل میں ڈوب جائے گا تو لب پر آئے گا
جس کو میں لکھوں وہی منظورؔ حرف تر بنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.