وہ جو راتوں کی تنہائیوں میں لکھے چاہتوں کے صحیفے سبھی پھٹ گئے
وہ جو راتوں کی تنہائیوں میں لکھے چاہتوں کے صحیفے سبھی پھٹ گئے
اظہر کمال خان
MORE BYاظہر کمال خان
وہ جو راتوں کی تنہائیوں میں لکھے چاہتوں کے صحیفے سبھی پھٹ گئے
ہم پہ ہنستے رہے وہ سبھی راستے ہم جہاں بھی تری سن کے آہٹ گئے
رنجشیں ہر طرف ہی پنپنے لگیں پیار کے راستے بند ہونے لگے
شہر میں نفرتوں کی ہوا جب چلی بغض کی گرد سے ذہن و دل اٹ گئے
دیکھتے دیکھتے جانتے بوجھتے یہ جدائی ہمارا مقدر ہوئی
پہلے سوچیں بٹیں پھر سفر بٹ گیا زاد رہ جب بٹا راستے بٹ گئے
دوستوں کی وفاؤں پہ نازان تھے اتنا پوجا کہ ان کو خدا کر دیا
خود کو ادنیٰ کیا ان کو اعلیٰ کیا سر جھکائے گئے اور سر کٹ گئے
میں نے سوچا ہے اکثر ہی اس بات پر کیسا آسیب چھایا ہے ہر ذات پر
دن جو نکلا تو سائے تھے قد سے بڑے شام ہوتے ہی جسموں سے کیوں گھٹ گئے
تیر پہنچے نہ دشمن کے خیموں تلک اپنے یاروں کی دیکھی ذرا سی جھلک
یار اپنا مقدر تو ہونا ہی تھا جب ہمارے مقابل ہی وہ ڈٹ گئے
آپ کا ساتھ ہی ہم کو مطلوب تھا آپ کی راہ کا سنگ ہرگز نہ تھا
آپ نے جب کہا ساتھ ہی چل دئے آپ نے جب کہا راہ سے ہٹ گئے
اس برس پیار میں پھر خسارہ ہوا ہم نے سوچا تھا انمول ہو جائے گا
اس جہاں میں ہر اک شے کی قیمت بڑھی اس برس پیار کے دام پھر گھٹ گئے
بیج بوئے گئے خوں پلائے گئے ان کی چھاؤں میں جیون بتائے گئے
میرے گاؤں میں بسنے لگی بھوک تو پیڑ جتنے پرانے تھے سب کٹ گئے
کس نے لکھی یہ قسمت کی تحریر تھی یا کہ ان کی یہ اپنی ہی تقصیر تھی
جن کی اونچی فلک سے بھی پرواز تھی ان پرندوں کے اکثر ہی پر کٹ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.