وہ جو یادوں کی روشنی سی تھی
وہ جو یادوں کی روشنی سی تھی
وہ جو آباد اک گلی سی تھی
وہ جو اک شہر تھا سمندر سا
اور سمندر پہ چاندنی سی تھی
وہ جو جنگل تھا اک کواڑوں کا
اور جنگل میں زندگی سی تھی
وہ جو دیوار پیچھے مکھڑے تھے
اور مکھڑوں پہ تازگی سی تھی
وہ جو اک باڑھ تھی گلابوں کی
وہ جو خوشبو دھلی دھلی سی تھی
وہ جو رستے میں ایک کٹیا تھی
وہ جو بڑھیا جھکی جھکی سی تھی
وہ جو صورت پہ تھا نمک اس کی
وہ جو باتوں میں چاشنی سی تھی
وہ جو لڑکی تھی اک پہیلی سی
وہ پہیلی جو ان کہی سی تھی
وہ جو کونے پہ ایک جامن تھا
وہ جو ڈالی ہری بھری سی تھی
وہ جو لڑکوں کی ایک گارد تھی
وہ جو اک فاختہ ڈری سی تھی
وہ جو لڑکا تھا اک چھریرا سا
اور رنگت بھی سانولی سی تھی
نام بھی یاد ہے بتائیں کیا
شکل بھی یاد ہے بھلی سی تھی
وہ جو اک پیڑ تھا پرانا سا
پیڑ اوپر جو اک پری سی تھی
وہ جو ویراں سی ایک مسجد تھی
وہ جو دیوار اک گری سی تھی
شاہ جنات جس میں رہتا تھا
ٹیڑھی میڑھی جو اک گلی سی تھی
وہ جو بوڑھا تھا سرخ آنکھوں کا
وہ جو لڑکی بجھی بجھی سی تھی
وہ جو بادل سا ایک پردہ تھا
ایک کھڑکی جو ادھ کھلی سی تھی
وہ جو کاغذ ملا دلا سا تھا
وہ جو چٹھی مڑی تڑی سی تھی
وہ جو تھے آنسوؤں سے بگڑے حرف
روشنائی اڑی اڑی سی تھی
وہ جو آنکھیں تھیں اک ستارہ سی
وہ جو اک لو چراغ کی سی تھی
رات وہ حال پوچھنے آئے
رات میں بھی تھکی تھکی سی تھی
میری مٹھی میں ایک کاغذ تھا
اور مٹھی بھنچی ہوئی سی تھی
پاس خبروں کا ایک ملبہ تھا
تھی جو تصویر ادھ جلی سی تھی
اک خبر تھی بہت ادھوری سی
ایک سرخی کٹی پٹی سی تھی
اختلافات نے اجاڑ دیا
وہ جو بستی بھری پری سی تھی
گھر جلے ہیں ہواؤں کی شہہ پر
آتش غم تو بس یوں ہی سی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.