وہ کروٹ بہ کروٹ سرہانے سے گزری
وہ کروٹ بہ کروٹ سرہانے سے گزری
مری رات تم کو منانے سے گزری
جو گزری نہ تھی ہجر کے گلستاں سے
وہ چاہت میں اپنے ٹھکانے سے گزری
جگر میں مرے ہے یہ کیا حشر برپا
یہ گزری ہے جو پاس آنے سے گزری
وہ کیا زندگی تھی جو پر نم لبوں کو
یوں دانتوں کے اندر دبانے سے گزری
بجی تال جب بھی تری دھڑکنوں کی
وہ لفظوں کے اندر فسانے سے گزری
اک عاشق نے پھولوں کی بارش سی کر دی
سنا ہے وہ جب آستانے سے گزری
کبھی تم تو آؤگی یہ آہ سن کر
ہے اب تک کسی اس بہانے سے گزری
جو گزری خیالوں کے مرکز پہ بیٹھے
وہ کاندھے پہ سر کو جھکانے سے گزری
املتاس کی پتیوں کی دری پر
گھڑی تم کو دکھڑا سنانے سے گزری
یہ حیران دل ہے مرادؔ جہاں کا
ہے جس پہ فنا کچھ چھپانے سے گزری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.