وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے
وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے
کہتے ہیں کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے
پہلی سی وہ خوشبوئے تمنا بھی نہیں ہے
اس بار کوئی خوف ہوا کا بھی نہیں ہے
اس چاند کی انگڑائی سے روشن ہیں در و بام
جو پردۂ شب رنگ پہ ابھرا بھی نہیں ہے
کہتے ہیں کہ اٹھنے کو ہے اب رسم محبت
اور اس کے سوا کوئی تماشا بھی نہیں ہے
اس شہر کی پہچان تھیں وہ پھول سی آنکھیں
اب یوں ہے کہ ان آنکھوں کا چرچا بھی نہیں ہے
کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجملؔ
اس گھر پہ تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.