وہ موسم بے خودی کے تھے جو موسم ہم گزار آئے
وہ موسم بے خودی کے تھے جو موسم ہم گزار آئے
کہ جب چاہا تمہارے نام سے خود کو پکار آئے
سفر کی سب اذیت منتظر آنکھیں اگر لے لیں
پروں میں طاقت پرواز پھر بے اختیار آئے
میں تشنہ لب زمینوں پر کہاں تک چشم تر رکھتی
سفر میں زندگی کے ہر قدم پر ریگ زار آئے
غموں کے دوش پر جب قریۂ جاں کا سفر ٹھہرا
چراغ اشکوں کے رکھے خواب پلکوں سے اتار آئے
مرے خوابوں کے سارے رنگ جس کی مٹھیوں میں ہیں
نہ جانے اب وہ کیا چاہے یہاں کیوں بار بار آئے
بدلتے موسموں کو خوں سے رنگیں پیرہن دے کر
چلو ہم دست قاتل کا ہر اک احساں اتار آئے
وفا کے تشنگی کے اور کچھ معصوم وعدوں کے
یہ سارے قرض دیکھو ہم لب دریا اتار آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.