وہ ملا تو حسن کے وہ سارے پیکر مل گئے
وہ ملا تو حسن کے وہ سارے پیکر مل گئے
میری کھوئی زندگی کے سارے منظر مل گئے
عمر بھر کرتے رہے ہم لوگ پانی کی تلاش
زندگی کی ریت پر سوکھے سمندر مل گئے
اے اکڑ کر چلنے والے بس تو اتنا سوچ لے
اس زمیں کی خاک میں کتنے سکندر مل گئے
وقت کو پھولوں کے جیسے ہم نے پالا تھا مگر
کس لئے پھر وقت کے ہاتھوں میں خنجر مل گئے
جب سے ہم اس کاروان بزم میں داخل ہوئے
کیا بتائیں کیسے کیسے پھر سخنور مل گئے
ہم جہاں کی مشکلوں سے عمر بھر لڑتے رہے
زخم ڈھونڈے تو وہ میرے دل کے اندر مل گئے
آج جتنے حکمراں ہیں ان کا ماضی دیکھ کر
جائزہ ہم نے لیا تو سارے نوکر مل گئے
وہ بھلائی کا زمانہ جا چکا منہاجؔ اب
مفلسی کی راہ میں سارے ستم گر مل گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.