وہ مرا عکس ہے سایہ ہے کہ پیکر کیا ہے
وہ مرا عکس ہے سایہ ہے کہ پیکر کیا ہے
میں نہیں ہوں تو مرے قد کے برابر کیا ہے
ہر نفس ذہن میں اٹھتا ہوا محشر کیا ہے
موج در موج مرے جسم کے اندر کیا ہے
بند آنکھوں سے بھی دیکھو کبھی آئینے کو
خود سمجھ لو گے کہ احساس کا پتھر کیا ہے
درد کے ایک ہی جھونکے نے اٹھایا طوفاں
کس کو معلوم کہ یادوں کا سمندر کیا ہے
قید کر رکھا ہے لمحات کی دیواروں نے
ان سے نکلوں تو ذرا دیکھوں کہ باہر کیا ہے
جس کو دیکھو وہی پتھر ہے لئے ہاتھوں میں
دیکھنا یہ ہے کہ شیشے کا مقدر کیا ہے
اک صنم روز تراشا اور اسے توڑ دیا
ذہن انساں ہے براہیمؔ کہ آذرؔ کیا ہے
جھیل میں ہنستا ہوا ننھا سا معصوم کنول
کتنا منظر ہے سہانا پس منظر کیا ہے
اپنی ہی آگ میں ہر لمحہ سلگتے رہنا
اور فن کار کی تقدیر میں جوہرؔ کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.