وہ مری چاہت نہ وہ ان کی ادائیں رہ گئیں
وہ مری چاہت نہ وہ ان کی ادائیں رہ گئیں
ذہن میں کچھ خوب صورت کلپنائیں رہ گئیں
جس قدر فانوس تھے نذر حوادث ہو گئے
اب چراغوں کی حفاظت میں ہوائیں رہ گئیں
اپنی بربادی کا افسانہ سنانے کے لئے
چند سوکھی ڈالیاں کچھ فاختائیں رہ گئیں
چشم و ابرو عارض و لب عشوہ و ناز و ادا
اک مرے دل کے لئے ساری بلائیں رہ گئیں
مال و زر تو بھائیوں نے کر لئے تقسیم سب
میرے حصے میں فقط ماں کی دعائیں رہ گئیں
ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے دھرم اور وشواس کے
بس نمائش کے لئے اب آستھائیں رہ گئیں
لائق اعزاز گردانے گئے اہل جفا
سرد بستے میں مری ساری وفائیں رہ گئیں
کون سنتا ہے یہاں حرف بصیرت اے ندیمؔ
دل کی باتیں ہو کے گنبد کی صدائیں رہ گئیں
- کتاب : سراب دشت امکاں(غزلیات) (Pg. 67)
- Author : ڈاکٹر امتیاز ندیم
- مطبع : مکتبہ نعیمہ صدر بازار(مئو ناتھ بھنجن) (2020)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.