وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں
وہ منتظر ہیں ہمارے تو ہم کسی کے ہیں
علامتوں میں یہ آثار خودکشی کے ہیں
پس مراد بہت خواب ہیں نگاہوں میں
سمندروں میں جزیرے یہ روشنی کے ہیں
میں اپنے آپ کو دشمن کے صرف میں دے دوں
یہ مشورے تو مری جان واپسی کے ہیں
ہجوم عکس ہے اور آئینہ صفت ہوں میں
سو میرے جتنے بھی دکھ ہیں وہ آگہی کے ہیں
کسی قبا کو میسر ہے فاخرہ ہونا
کسی لباس میں پیوند مفلسی کے ہیں
میں اس سے دکھ کے بھی اس کو دعائیں دیتی ہوں
عجیب رنگ محبت میں دشمنی کے ہیں
میں جب بھی چاہوں جبھی اس سے گفتگو کر لوں
مری غزل پہ یہ احسان شاعری کے ہیں
جو شہر سنگ میں شیشہ مزاج ہیں روحیؔ
وہ ذمے دار خود اپنی شکستگی کے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.