وہ مشت خاک جو پروانۂ دلگیر بنتی ہے
دلچسپ معلومات
(جولائی 1942ء )
وہ مشت خاک جو پروانۂ دلگیر بنتی ہے
جگر کی آگ بجھ جاتی ہے جب اکسیر بنتی ہے
حیات جاودانی ہاتھ آتی ہے فنا ہو کر
مری خاکستر دل رشک صد اکسیر بنتی ہے
نہ جینا راس آتا ہے نہ مرنا راس آتا ہے
نہ یہ تدبیر بنتی ہے نہ وہ تدبیر بنتی ہے
کچھ اپنی خانہ بربادی سے اندیشہ نہیں مجھ کو
مری دو ٹھوکروں سے اک نئی تعمیر بنتی ہے
کچھ اس کا فطرت آزاد پر قابو نہیں چلتا
یہ دنیا تو ہر اک کے پاؤں کی زنجیر بنتی ہے
بنانے سے کبھی انسان کی قسمت نہیں بنتی
مگر بننے پہ آتی ہے تو بے تدبیر بنتی ہے
کبھی مختار کر دینا کبھی مجبور کر دینا
مجھے معلوم ہے جیسے مری تقدیر بنتی ہے
کسی سے میرے دل کا مدعا ظاہر نہیں ہوتا
مری بے چارگی اپنی ہی خود تفسیر بنتی ہے
مجھے شرمندۂ الزام ہونے کی ضرورت کیا
وسیلہ مغفرت کا جب مری تقصیر بنتی ہے
کمالے را زوالے داخل آئین قدرت ہے
جو بن کر پھر نہ بگڑے وہ کہاں تقدیر بنتی ہے
مسرت یاد آ جاتی ہے جب عہد گزشتہ کی
دل مایوس کے حق میں سنان و تیر بنتی ہے
جسے دنیا میں دیکھا ہم نے تجھ کو کوستے دیکھا
کسی سے بھی تری اے آسمان پیر بنتی ہے
نہ جانے کاتب قسمت پہ کیوں الزام رکھتے ہیں
خود اپنے ہاتھ سے انسان کی تقدیر بنتی ہے
بشر مٹی کا پتلا ہی سہی زیر فلک طالبؔ
محبت سے مگر یہ خاک بھی اکسیر بنتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.