وہ نظم و ضبط کے سب مرحلے گزر چکے ہیں
وہ نظم و ضبط کے سب مرحلے گزر چکے ہیں
ہوا میں راکھ کے مانند ہم بکھر چکے ہیں
نثار عشق میں کرتے ہیں لوگ جاں اور ہم
یہ عاقبت ہی کسی پر نثار کر چکے ہیں
یہ غسل و دفن کی رسمیں تو ہوں گی جب ہوں گی
تکلفات نفس کے ہیں ہم تو مر چکے ہیں
یہ ہست و بود یہ دور جہاں مسلسل ہے
درون ذات تو برسوں سے ہم ٹھہر چکے ہیں
حسیب باغ جہاں کی نظر کے طالب ہیں
ہم ایسے برگ و ثمر خوب اب نکھر چکے ہیں
بہ وقت صبح گلوں پر نکھار آ چکا ہے
کٹورے اشک ندامت سے خوب بھر چکے ہیں
اب آئنے میں ابھرتا نہیں ہے عکس مرا
ظہیرؔ حد سے زیادہ ہی کچھ سنور چکے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.