وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے
وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے
ترے رنگ و بو کے وہ قافلے ترے پیرہن سے چلے گئے
کوئی آس ہے نہ ہراس ہے شب ماہ کتنی اداس ہے
وہ جو رنگ رنگ کے عکس تھے وہ کرن کرن سے چلے گئے
کوئی ان کی آنکھیں سراہتا کوئی وحشتوں سے نباہتا
کہ وہ آہوان رمیدہ خو یہ سنا ختن سے چلے گئے
کئی مہر و مہ اتر آئے تھے وہ یہیں تھے میرے گھر آئے تھے
وہ کلی کلی سے در آئے تھے وہ چمن چمن سے چلے گئے
مرے دل کی آب و ہوا لگی کہ وفا بھی ان کو خطا لگی
وہی سادگی سے جو آئے تھے وہی بانکپن سے چلے گئے
نہ تو کفر کے نہ خدا کے ہم نہ دوا کے ہم نہ دعا کے ہم
کہ بتان کعبۂ آرزو دل برہمن سے چلے گئے
یہ مرا فریب نظر نہیں مرے ہم قدم تھے یہیں کہیں
مجھے آہٹیں بھی نہ مل سکیں وہ بڑے جتن سے چلے گئے
یہ بجا کہ تحفۂ جاں لیے ترے پاس آئے تھے بے پئے
وہ گدا گران تہی سبو ترے حسن ظن سے چلے گئے
یہی تجھ سے اپنا تھا واسطہ یہی تھی حیات معاشقہ
تری خلوتوں کے شریک تھے تری انجمن سے چلے گئے
پس عمر بازوئے شوق پر سر ناز تھا تو ہوئی خبر
کئی رت جگے ترے گیسوؤں کی شکن شکن سے چلے گئے
وہ بجھے بجھے وہ لٹے لٹے سر راہ شاذؔ ملے تو تھے
انہیں اب وطن میں نہ ڈھونڈئیے کہ وہ اب وطن سے چلے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.