وہ پہلے دشت کی آب و ہوا کو تولے گا
وہ پہلے دشت کی آب و ہوا کو تولے گا
حساب میرے تنفس کا اب کے جو لے گا
فضا میں رنگ وہ کچھ اس ادا سے گھولے گا
مرے جگر کے لہو سے بدن بھگو لے گا
بڑھا کے سب کی ضرورت کو اشتہاروں سے
جہاں وہ چاہے گا اپنی دکان کھولے گا
بہت کٹھن ہے سمجھنا سیاستیں اس کی
غرض ہوئی تو وہ دشمن کے ساتھ ہو لے گا
خبر ہے گرم کہ طوفان آنے والا ہے
تو کیا مجال کہ پتا بھی کوئی ڈولے گا
ہر ایک شے تو ہے تہذیب کے شکنجے میں
چہک چہک کے گلستاں میں کون بولے گا
سخنوری میں نظر آئے گی تبھی رونق
تو خون دل میں اگر انگلیاں ڈبو لے گا
بکھر رہے ہیں سر بزم قہقہے جس کے
گہر وہ اشک کے تنہائیوں میں رو لے گا
رواں حیات ہے خوابوں کی شاہراہوں پر
ابھی سکون سے ببیاکؔ کیسے سو لے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.