وہ پیاس تھی کہ چلنے کا یارا بھی نہیں تھا
وہ پیاس تھی کہ چلنے کا یارا بھی نہیں تھا
دریا تو نظر آتا تھا دریا بھی نہیں تھا
دیکھا ہی نہیں اس نے مرا دار پہ چڑھنا
دلچسپ کچھ ایسا وہ تماشا بھی نہیں تھا
کیا بات ہے کہ قافلہ منزل پہ نہ پہنچا
رہبر کا یا رہزن کا تو خطرہ بھی نہیں تھا
اتنا بھی نہ ہو دشت میں تنہائی کا عالم
واں رقص کناں کوئی بگولا بھی نہیں تھا
رستے میں مجھے روک کے کیوں خیریت پوچھی
پہلے تو کبھی دیکھ کے بولا بھی نہیں تھا
پندار تھا اس کا مجھے ٹھوکر جو لگائی
رستہ تھا صحیح آنکھ سے اندھا بھی نہیں تھا
احساس خودی جانے میں مانع رہا شاہدؔ
اس نے تو مجھے بزم میں ٹوکا بھی نہیں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.