وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے
وہ صنم جو مہر عذار ہے اسے ہم سے ملنے میں عار ہے
ولے اپنا جو دل زار ہے وہ ہزار جاں سے نثار ہے
ملے جب سے کوچے میں اس کے جا یہ سرور عیش ہے برملا
لب دل ہے اور وہ نقش پا بر جاں ہے اور در یار ہے
وہ نگہ جو اس کی ہے فتنہ گر اسے مشق صید ہے پیشتر
ہے جو دل کا طائر تیز پر اسی باز کا یہ شکار ہے
وہ مژہ لگا کے جو ایک سناں گئی پھر تو کر نہ دل اب فغاں
کئی ایسے ہوویں گے امتحاں یہ ابھی تو پہلا ہی وار ہے
جو بہار گل پہ رہی ہے تل ہمیں کیا جو حسن کی پی ہے مل
جنہیں چاہئے ہے وہ رشک گل انہیں گل سے کیا سروکار ہے
جو بتوں کو دیویں دل اور دیں رکھیں اس کو یہ بہ الم قریں
بھلا کہئے کیا اسے ہم نشیں یہ عجب کچھ ان کا شعار ہے
کئی دن ہوئے ہیں نظیرؔ اب کہ خفا ہے ہم سے وہ غنچہ لب
اسے کیا ولے ہمیں روز و شب نہ تو صبر ہے نہ قرار ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.