وہ شب شکن سے نیا آفتاب نکلا ہے
لہو کی شاخ پہ تنہا گلاب نکلا ہے
مری کتاب میں جس کا کوئی نشاں بھی نہیں
اسی کے نام مگر انتساب نکلا ہے
جہاں جہاں مجھے چاہا تھا تو نے خرچ کیا
اسی لحاظ سے میرا حساب نکلا ہے
نہ سیکڑوں نہ ہزاروں نہ لاکھ کی باتیں
وہ انتخاب میں بھی انتخاب نکلا ہے
جو دوسروں کے تعاقب میں روز و شب کاٹے
اسی کے گھر سے نیا احتساب نکلا ہے
شجر شجر ہوئے شاداب پھول پھل آئے
نئے سفر پہ اگر انقلاب نکلا ہے
کچھ ایسے وقت نے لوٹا شباب تک اس کا
اسی کی کھوج میں خانہ خراب نکلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.