وہ شجر کیا جو پر ثمر نہ ہوا
وہ شجر کیا جو پر ثمر نہ ہوا
دل وہ کیا جس میں تیرا گھر نہ ہوا
بے بسی بھی عجیب عالم ہے
حوصلہ کوئی بارور نہ ہوا
دشت وحشت میں ایک بھی نہ ملا
راستہ جو کہ پر خطر نہ ہوا
فصل گل آئی بھی تو کب آئی
جبکہ بازو میں کوئی پر نہ ہوا
پیش رہتا ہے اب تصور یار
درد دل دے کے بے خبر نہ ہوا
ملنا کیسا کہ یاد بھی نہ کیا
میرے نالوں کا کچھ اثر نہ ہوا
دوش تقدیر کا ہی پھر نکلا
خط جو لکھا تو نامہ بر نہ ہوا
یہ بھی اچھا ہوا کہ تو آ کر
میری میت پہ نوحہ گر نہ ہوا
اپنی قسمت کو آزما لیتا
کیا کہوں اس کا سنگ در نہ ہوا
سوزش غم سے اب کہاں آنسو
ان کا دامن بھی آج تر نہ ہوا
رسم الفت بھی ایک گہرا راز
کوئی بھی اس سے باخبر نہ ہوا
ظلم کب تک بھلا سہے ان کے
ایک پتھر ہوا جگر نہ ہوا
ایسی لکھی غزل کہ یاروں سے
لفظ کوئی ادھر ادھر نہ ہوا
مر مٹے جس کے عشق میں سیافؔ
وہ ہی افسوس باخبر نہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.