وہ شخص میرے دل سے نکل ہی نہیں رہا
وہ شخص میرے دل سے نکل ہی نہیں رہا
دل ہے کہ اپنی ضد سے پگھل ہی نہیں رہا
اب وقت کا تماشہ تو کھل ہی نہیں رہا
جس کل میں جی رہا تھا وہ کل ہی نہیں رہا
وہ جیتنا جو چاہے تو بازی کو جیت لے
لیکن جو وسوسوں سے نکل ہی نہیں رہا
چکر میں پڑ گیا ہے جو دھوکے سے عشق کے
پھر اس کی الجھنوں سے نکل ہی نہیں رہا
گھڑیاں بدل بدل کے بھی دیکھیں ہیں صبح شام
کیسا یہ وقت ہے جو بدل ہی نہیں رہا
منظر دکھاؤں اور میں عبرت کے کس قدر
انسان ہے کہ اب بھی سنبھل ہی نہیں رہا
مسجد میں بے دلی سے اذاں دے رہا ہے کون
شیطان کوئی گھر سے نکل ہی نہیں رہا
دھوکے سے ایک سکہ جو کھوٹا نکل گیا
اب کیا کروں میں اس کا کہ چل ہی نہیں رہا
بازی ٹکی ہوئی ہے مری اگلی چال پر
تو جاؤ پھر یہ چال میں چل ہی نہیں رہا
اب کیوں دکھا رہے ہو یہ منزل کا راستہ
مسعودؔ تیرے ساتھ میں چل ہی نہیں رہا
دشمن کے نام کے تو دن آتے ہی ڈھل گئے
مسعودؔ کا زمانہ تو ڈھل ہی نہیں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.