وہ ستم کرتے گئے اور میں ستم سہتی گئی
وہ ستم کرتے گئے اور میں ستم سہتی گئی
کاغذی کشتی تھی میں برسات میں بہتی گئی
چاہے کوئی مانے یا مانے نہیں میری دلیل
بات سچ تھی اس لئے میں چیخ کر کہتی گئی
شاید ان کو شرم آ جائے تو وہ رسوا نہ ہوں
بس اسی امید پر میں آج تک رہتی گئی
میرا رشتہ تھا سمندر سے تو میں رکتی کہاں
موج دریا کی طرح بہتی گئی بہتی گئی
نازؔ اس امید پر شاید کہ ہوش آئے انہیں
بے اثر ہر بات تھی ان پر مگر کہتی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.