وہ اٹھے تو بہت گھر سے اپنے مرے گھر میں مگر کبھی آ نہ سکے
وہ اٹھے تو بہت گھر سے اپنے مرے گھر میں مگر کبھی آ نہ سکے
اکبر الہ آبادی
MORE BYاکبر الہ آبادی
وہ اٹھے تو بہت گھر سے اپنے مرے گھر میں مگر کبھی آ نہ سکے
وہ نسیم مراد چلے بھی تو کیا کہ جو غنچۂ دل کو کھلا نہ سکے
شب و روز جو رہتے تھے پیش نظر بڑے لطف سے ہوتی تھی جن میں بسر
یہ خبر نہیں جا کے رہے وہ کدھر کہ ہم ان کا نشان بھی پا نہ سکے
یہ مرے ہی نہ آنے کا سب ہے اثر کہ رقیبوں سے دبتے ہو آٹھ پہر
مرے حال پہ چشم کرم جو رہے کوئی آپ سے آنکھ ملا نہ سکے
کیا جذبۂ عشق نے میرے اثر رہی غیرت حسن پہ ان کی نظر
پس پردہ صدا تو سنائی مجھے مگر اپنا جمال دکھا نہ سکے
رہا شہرۂ عشق کا یاں مجھے ڈر انہیں اپنے پرائے کا خوف و خطر
رہیں دل ہی میں حسرتیں دونوں طرف جو میں جا نہ سکا تو وہ آ نہ سکے
وہی دل کی تڑپ وہی درد جگر ہوا توبۂ عشق کا کچھ نہ اثر
تری شکل جو آنکھوں میں پھرتی رہی تری یاد بھی دل سے بھلا نہ سکے
ہے خدا کی جناب میں صبح و مسا یہی اکبرؔ خستہ جگر کی دعا
کہ ہمارے سوا بت ہوش ربا کوئی سینہ سے تجھ کو لگا نہ سکے
- کتاب : ہنگامہ ہے کیوں برپا (Pg. 68)
- Author : اکبر الہ آبادی
- مطبع : ریختہ بکس (2023)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.