وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے
وہ اٹھے ہیں تیور بدلتے ہوئے
چلو دیکھیں تلوار چلتے ہوئے
نہ دیکھا ترے دور میں اے فلک
نہال تمنا کو پھلتے ہوئے
ہیں انگشت حیرت بدنداں مسیح
وہ مردے جلاتے ہیں چلتے ہوئے
چلو مے کدہ محفل وعظ سے
یہ عمامے دیکھو اچھلتے ہوئے
زباں پر ترا نام جب آ گیا
تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے
محبت میں پائے ہر اک راہ سے
ہزاروں ہی رستے نکلتے ہوئے
ہیں کیا ان کی زلفیں یہ اے دل نہ پوچھ
چھلاوے کو دیکھا ہے چھلتے ہوئے
بنے جزو تن جب چبھے خار غم
یہ کانٹے نہ دیکھے نکلتے ہوئے
کیا کچھ نہ جب تک رہا اختیار
جہاں سے چلے ہاتھ ملتے ہوئے
غم عشق پیدا ہوا میرے ساتھ
اسے گزری اک عمر پلتے ہوئے
رکے کس طرح تیغ ابرو کا وار
سنا ہے اجل کو بھی ٹلتے ہوئے
ان آنکھوں کے فتنوں کا کیا پوچھنا
یہ جادو ہیں لاکھوں میں چلتے ہوئے
نہیں شمع عارض پہ خط جمع ہیں
ہزاروں ہی پروانے جلتے ہوئے
فسانے ہیں مشہور عشاق کے
کٹی عمر فرقت میں جلتے ہوئے
جواں مرتے دیکھے بہت نامراد
سنا ہوگا ارماں نکلتے ہوئے
نہیں کھیل چلنا رہ عشق میں
ذرا پاؤں رکھنا سنبھلتے ہوئے
جو مشہور ثابت قدم تھے حبیبؔ
انہیں ہم نے دیکھا پھسلتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.